AsiaCalling

Home News Nepal نیپال میں ہم جنس پرستوں کی شادیاں قانونی قرار دینے پر غور

نیپال میں ہم جنس پرستوں کی شادیاں قانونی قرار دینے پر غور

ای میل چھاپیے پی ڈی ایف

Download

نیپال جنوبی ایشیاءکا پہلا ملک بننے والا ہے جہاں ہم جنس پرستوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔اس سلسلے میں عدالت نے حکومت کو اقدامات کرنیکا حکم سنایا ہے اسی بارے میں سنتے ہیں جکارتہ انڈونیشیاءکے ریڈیو kbr68h کی آج کی رپورٹ

 

38 سالہ Dillu Buduja نیپال کے ان دو شہریوں میں شامل ہے جنھیں سرکاری طور پر نہ تو مرد مانا جاتا ہے اور نہ ہی عورت۔

وہ فخریہ انداز میں اپنی شہریت کا سرٹیفکیٹ دکھا رہی ہیں، جس میں انہیں تیسری جنس میں شامل قرار دیا گیا ہے۔

"ہوسکتا ہے کہ آپ کے لئے محض یہ ایک لفظ ہو، مگر میری نظر میں یہ فتح ہے۔جب بھی میں کسی عوامی مقام پر ہوتی ہوں، لگتا ہے کہ جیسے مجھے کوئی سزا دی جارہی ہوں۔ جب میں خواتین کے لئے مخصوص بیت الخلاءجاتی ہوں تو وہ مجھے جھڑکنے لگتی ہیں، کئی بار تو مجھے سینڈلوں سے مار بھی پڑتی ہے۔ اگر میں کسی مردوں کے بیت الخلاءمیں جاﺅں تو میں وہاں خود کو مطمئن محسوس نہیں کرتی۔ مگر اب تیسری جنس کا سرٹیفکیٹ حاصل کرکے کم از کم لوگوں کو یہ تو معلوم ہوسکے گا کہ میں مختلف ہوں اور میرے ساتھ مناسب رویہ اختیار کیا جانا چاہئے"۔

انکا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی جانتی تھی کہ وہ مختلف ہیں۔

"بچپن میں میرا ہر عمل لڑکوں جیسا ہوتا تھا، مگر لڑکپن میں میرے اندر تبدیلی آنے لگی اور میں لڑکیوں جیسے روئیے کا مظاہرہ کرنے لگی۔ جب لوگوں نے میرے بارے میں بات پھیلانا شروع کی تو مجھے احساس ہوا کہ میں دوسروں سے مختلف ہوں۔ میں دیگر خواتین جیسی تو نہیں مگر میں خود کو تبدیل بھی نہیں کرسکتی"۔

2007ءمیں نیپال کی سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے قوانین کو ختم کرے جو تیسری جنس کے افراد کے خلاف ہیں۔

Hari Fuyal اس تاریخ ساز کیس کو لڑنے والے وکلاءمیں سے ایک ہیں۔

"درحقیقت پورا فیصلہ مثبت نکات پر مشتمل ہے، جیسے لوگوں کو امتیازی روئیے سے روکنا، قانون

ساز اداروں کو تیسری جنس کے افراد کو ہراساں کرنے سے روکنا، انہیں ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنا، انہیں جنسی شناخت دینا۔ اسی طرح انہیں شہریت کی دستاویزات فراہم کرنا وغیرہ"۔

مگر عدالتی فیصلے اور زمینی حقائق میں ابھی بھی واضح خلاءموجود ہے۔

19 سالہ Sudipa اور ان کی دوست 18 سالہ Akansha کا کہنا ہے کہ انہیں مغربی نیپال میں واقع ان کے گھروں سے زبردستی نکال باہر کیا گیا۔

"جب لوگ ہمیں اکٹھا دیکھتے تو وہ ہمیں بدقسمتی کی علامت قرار دیتے۔ ہمارے والدین ہمیں الگ کرنیکی کوشش کرتے، وہ میری دوست کو روزانہ مارتے، اس کے جسم پر ابھی بھی زخموں اور خراشوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ میرے لئے یہ حقیقت تسلیم کرنا مشکل تھا کہ اسے میری وجہ سے تکلیف پہنچائی جارہی ہے"۔

دونوں نے والدین کے خوف سے زہر کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی، تاہم انہیں بچالیا گیا۔ Akansha زہر سے تو متاثر نہیں ہوسکیں مگر اپنی دوست کے اوپر مظالم نے انہیں آنسو بہانے پر مجبور کردیا۔

"وہ تین دن تک بے ہوش رہی، وہ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں تھی اور اس کی حالت خراب ہونے کے باوجود والد��ن اسے گھر واپس لے آئے، حالانکہ وہ ہوش میں نہیں تھی۔ اسکے خاندان کا کہنا تھا کہ اگر وہ مر بھی گئی تو انہیں پروا نہیں۔ میں اسکے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی مگر ہمارے خاندان اس بات کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں"۔

تین دن بعد Sudipa کومے سے باہر نکلی تو اس کے خاندان نے کہا کہ وہ اپنی سہیلی سے اب کبھی نہیں مل سکتی، جس پر ان دونوں نے کھٹمنڈو بھاگ جانے کا فیصلہ کیا،جہاں انھوں نے ایک فلاحی ادارے بلیو ڈائمنڈ کے پاس پناہ لی۔ Prem Thapa اس ادارے کے قانونی مشیر ہیں۔

"اس چیز لوگوں میں شعور اجاگر کرنا ہے، ہم ایسا ماحول پیدا کرنیکی کوشش کررہے ہیں جس سے معاشرہ ایسی اقلیت کو قبول کرسکے۔ ہم لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ ہم جنسی پرستی کی کیا وجوہات ہیں۔ ہر سال ہم اس مسئلے کو اجاگر کرنے کیلئے ریلیوں کا انعقاد کرتے ہیں۔اب لوگوں نے اس چیز کا احساس کرنا شروع کردیا ہے"۔

ان کی کوششوں کے باعث ہی حکومتی پارلیمانی کمیٹی نے ہم جنس پرستوں کے تحفظ کیلئے نےا قانون تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ وکیل Hari Fuyal اس کمیٹی کے رکن ہیں۔

"کمیٹی نے اپنا کام تقریباً مکم�� کرلیا ہے، اور اب ہم جنس پرستوں کو ایک دوسرے سے شادی

کے لئے دیگر افراد جیسے حقوق فراہم کرنیوالے ہیں۔ ان کی شادیاں ہر جگہ رجسٹرڈ کی جائیں گی۔ ہم اس حوالے سے رپورٹ

جلد حکومت کے پاس جمع کرادیں گے"۔

سوال" کیا آپ کے خیال میں قانون ساز اسمبلی اس قانون کی منظوری دےدے گی؟

"مجھے نہیں لگتا اس معاملے پر کوئی اعتراض سامنے آئے گا۔انہیں سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنا ہے۔عدالت نے تو بس انسانی حقوق پر عملدرآمد کا حکم دیا ہے جس کے عالمی معاہدے کی نیپال نے توثیق کی ہے"۔

 

آخری تازہ کاری ( پیر, 14 نومبر 2011 10:02 )  

Add comment


Security code
Refresh